"چلو ذرا پیچھے چلتے ہیں، بیسویں صدی کے شروع دنوں میں، جب کھانوں میں 'دیسی گھی' کا راج تھا۔ لیکن دیسی گھی سب کے لیے دستیاب نہیں تھا، کیونکہ یہ مہنگا تھا۔ تب ایک نیا گھی آیا، جس نے سب کچھ بدل دیا: بناسپتی گھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی ہمارے لیے اچھا ہے؟ آئیں، اس کی کہانی جانتے ہیں۔"
بناسپتی گھی کی ایجاد کیسے ہوئی؟
"چلیں، پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ بناسپتی گھی ہے کیا۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ یہ عام دیسی گھی جیسا ہوتا ہے، تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ گھی سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ یہ ہائیڈروجنیٹڈ ویجیٹیبل آئل ہے، یعنی مختلف قسم کے سبزیوں کے تیل کو ایک خاص عمل سے گزارا جاتا ہے، جسے 'ہائیڈروجنیشن' کہتے ہیں۔ اس عمل میں ان تیلوں کو ٹھوس یا نیم ٹھوس شکل دی جاتی ہے تاکہ یہ گھی جیسا لگے اور کھانے میں استعمال ہو سکے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر بناسپتی گھی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اُس وقت روایتی دیسی گھی، جو مکھن سے تیار کیا جاتا تھا، ایک مہنگی اور نایاب چیز تھی۔ یہ صرف وہی لوگ استعمال کر سکتے تھے جو معاشی طور پر مستحکم تھے۔ عام لوگ دیسی گھی کے بغیر کھانا بناتے تھے، جو اتنا ذائقہ دار نہیں ہوتا تھا۔
انیس سو سینتیس میں، ہندوستان میں پہلا بناسپتی گھی کا برانڈ متعارف کروایا گیا۔ اس وقت اسے انقلابی پروڈکٹ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ یہ دیسی گھی کے مقابلے میں بہت سستا تھا اور زیادہ دیر تک خراب نہیں ہوتا تھا۔ اس کی شیلف لائف کافی لمبی تھی، جس کی وجہ سے یہ بازاروں اور گھروں دونوں میں جلد مقبول ہو گیا۔
اشتہارات کا بھی اس کی مقبولیت میں بڑا کردار رہا۔ اُس دور میں بناسپتی گھی کو ایسے پیش کیا گیا جیسے یہ ایک 'جدید' اور 'ضروری' چیز ہو۔ بہت سی مشہور برانڈز نے اسے گھریلو خواتین کے لیے ایک مثالی انتخاب کے طور پر پیش کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہر گھر کی ضرورت بن گیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک سستا، آسان اور دیرپا متبادل تھا، جس نے روایتی دیسی گھی کی جگہ لے لی۔
مگر، یہ سب کچھ اتنا سیدھا بھی نہیں تھا۔ بناسپتی گھی نے صرف بازاروں پر ہی نہیں، بلکہ لوگوں کی صحت پر بھی اثر ڈالا، جو کہ آگے چل کر ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ لیکن اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ ابھی، یہ جاننا ضروری ہے کہ بناسپتی گھی کی ابتدا کا مقصد لوگوں کو ایک ایسی چیز دینا تھا، جو دیسی گھی جیسی لگے، مگر کم قیمت میں ہو۔"
کھانوں میں بناسپتی گھی کا کردار
"بناسپتی گھی کے آتے ہی کھانوں کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا۔ سوچیں، ایک ایسا وقت تھا جب لوگ دیسی گھی کو صرف خاص مواقع یا مہمانوں کے لیے استعمال کرتے تھے کیونکہ یہ مہنگا اور محدود مقدار میں دستیاب تھا۔ پھر بناسپتی گھی آیا، جو نہ صرف سستا تھا بلکہ آسانی سے ہر جگہ دستیاب بھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہر گھرانے نے اسے اپنے کھانوں کا لازمی حصہ بنا لیا۔
شیف ہوں یا عام گھریلو باورچی، سب نے بناسپتی گھی کے ساتھ کھانے پکانے کے نت نئے تجربات کیے۔ اس کی ہموار ساخت اور ذائقہ کھانے کو مزیدار بناتا تھا۔ مختلف قسم کے پکوان جیسے حلوہ، بریانی، پراٹھے، سموسے، اور دیگر تلی ہوئی چیزیں اس کے بغیر ادھوری لگنے لگیں۔ لوگ کہتے تھے کہ بناسپتی گھی کھانے میں ایسا ذائقہ لاتا ہے جو کوئی اور چیز نہیں دے سکتی۔
یہی نہیں، اس نے تخلیقی پکوانوں کو بھی جنم دیا۔ شیفز نے نئی تراکیب دریافت کیں، اور لوگ اس کے ذریعے اپنے کھانے زیادہ خوشبودار اور پرکشش بنانے لگے۔ مثال کے طور پر، حلوہ بنانا پہلے ایک مہنگا اور وقت طلب کام سمجھا جاتا تھا، مگر بناسپتی گھی نے اسے آسان بنا دیا۔
ایک اور فائدہ اس کا یہ تھا کہ یہ دیر تک خراب نہیں ہوتا تھا۔ اس کی لمبی شیلف لائف کی وجہ سے لوگ اسے بڑی مقدار میں خرید کر ذخیرہ کر سکتے تھے۔ یہ خصوصیت ان گھروں کے لیے مثالی تھی جہاں روزمرہ کے کھانوں میں گھی کا استعمال زیادہ ہوتا تھا۔
لیکن ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ بناسپتی گھی نے اگرچہ کھانوں میں تخلیقی اور ذائقے دار تجربات کو فروغ دیا، مگر اس کے ساتھ ہی یہ صحت کے مسائل بھی لے کر آیا۔ اس وقت شاید لوگوں کو اس کے نقصانات کا اندازہ نہیں تھا، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اور سائنس نے اپنی تحقیق کے ذریعے ہائیڈروجنیٹڈ آئل اور ٹرانس فیٹس کے اثرات کو سمجھا، لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کر دیا: کیا یہ واقعی ہمارے لیے اتنا فائدہ مند ہے؟
یہ وہ سوال تھا جس نے بناسپتی گھی کی مقبولیت کو وقت کے ساتھ کم کرنا شروع کر دیا۔ لیکن اس سے پہلے، یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے آنے سے کھانوں میں جو جدت آئی، وہ ایک تاریخی موڑ تھا۔"
صحت کے مسائل
"بناسپتی گھی نے جہاں کھانوں کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، وہیں وقت کے ساتھ ساتھ اس کے صحت پر پڑنے والے اثرات بھی نمایاں ہونے لگے۔ ابتدا میں لوگوں نے صرف اس کے فوائد دیکھے—کم قیمت، ذائقہ، اور لمبی شیلف لائف۔ لیکن جیسے جیسے سائنس اور تحقیق نے ترقی کی، ویسے ہی بناسپتی گھی کے مضر اثرات سامنے آنے لگے۔
اس کی سب سے بڑی خرابی اس میں موجود ٹرانس فیٹس ہیں۔ ٹرانس فیٹس ہائیڈروجنیشن کے عمل کے دوران پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کیمیکل عمل ہے جس میں غیر سیر شدہ تیل (unsaturated fats) میں ہائیڈروجن شامل کر کے اسے ٹھوس یا نیم ٹھوس بنایا جاتا ہے۔ یہی عمل بناسپتی گھی کو اس کی مخصوص ساخت دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ صحت کے لیے نقصان دہ فیٹس بھی پیدا کرتا ہے۔
ٹرانس فیٹس کیسے نقصان دہ ہیں؟
یہ فیٹس آپ کے جسم میں 'اچھے' کولیسٹرول (HDL) کو کم کرتے ہیں اور 'خراب' کولیسٹرول (LDL) کو بڑھاتے ہیں۔ یہ دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر، اور فالج جیسے مسائل کا بڑا سبب بنتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، ٹرانس فیٹس کے زیادہ استعمال سے دل کے دورے کا خطرہ تقریباً 25 سے 30 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ یہ صرف دل ہی نہیں، بلکہ موٹاپے، ذیابیطس، اور دیگر دائمی بیماریوں کے خطرے کو بھی بڑھاتا ہے۔
قوانین اور پابندیاں
وقت کے ساتھ، مختلف ممالک نے بناسپتی گھی اور اس جیسے دیگر ہائیڈروجنیٹڈ آئلز میں موجود ٹرانس فیٹس کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ بھارت، پاکستان، اور کئی دیگر ممالک میں اس حوالے سے سخت قوانین بنائے گئے۔ ان قوانین کے تحت، کھانے کی اشیاء میں ٹرانس فیٹس کی مقدار محدود کر دی گئی۔
مثال کے طور پر، بھارت میں فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز اتھارٹی (FSSAI) نے 2022 میں ٹرانس فیٹس کی مقدار کو 2 فیصد سے زیادہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی۔ اسی طرح عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے ایک عالمی مہم شروع کی، جس کا مقصد 2023 تک کھانے کی اشیاء میں ٹرانس فیٹس کا مکمل خاتمہ تھا۔
عام لوگوں پر اثرات
ان قوانین کی وجہ سے، خاص طور پر شہروں میں رہنے والے لوگ صحت مند متبادل کی طرف منتقل ہونے لگے ہیں، جیسے زیتون کا تیل، سورج مکھی کا تیل، اور ناریل کا تیل۔ یہ تیل نہ صرف دل کے لیے بہتر ہیں بلکہ ٹرانس فیٹس سے بھی پاک ہیں۔ لیکن دیہی علاقوں میں بناسپتی گھی آج بھی مقبول ہے، کیونکہ یہ کم قیمت اور آسانی سے دستیاب ہے۔
غذائی شعور میں اضافہ
اب، لوگ اپنی صحت کے بارے میں زیادہ شعور رکھتے ہیں۔ وہ غذائی لیبلز پڑھنے اور صحت مند آپشنز منتخب کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر پھر بھی، بناسپتی گھی کی موجودگی اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ہماری خوراک کے کلچر میں تبدیلی وقت کے ساتھ آتی ہے۔
آج کل کے رجحانات اور صحت مند متبادل
"وقت کے ساتھ لوگوں کی غذائی عادات میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک دور تھا جب بناسپتی گھی ہر باورچی خانے کا لازمی جزو تھا، لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔ لوگ اب زیادہ شعور رکھتے ہیں اور صحت مند زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس شعور نے کھانے کے تیل اور گھی کے انتخاب پر بھی اثر ڈالا ہے۔
صحت مند متبادل کی مقبولیت
آج کے دور میں، زیتون کا تیل، ناریل کا تیل، اور سورج مکھی کا تیل تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ ان کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ کم سیر شدہ چکنائی اور ٹرانس فیٹس سے پاک ہوتے ہیں۔ یہ تیل دل کے لیے بہتر سمجھے جاتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے خطرات کو کم کرتے ہیں۔
زیتون کا تیل: زیتون کا تیل دل کے لیے ایک بہترین آپشن ہے۔ اس میں موجود مونوسیر شدہ چکنائی جسم کے اچھے کولیسٹرول کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔
ناریل کا تیل: ناریل کا تیل اینٹی آکسیڈنٹس اور قدرتی چکنائی سے بھرپور ہے، جو جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے اور قوت مدافعت کو مضبوط کرتا ہے۔
سورج مکھی کا تیل: سورج مکھی کے تیل میں وٹامن ای اور دیگر غذائی اجزا موجود ہوتے ہیں، جو جلد اور دل کی صحت کے لیے مفید ہیں۔
شہری اور دیہی فرق
شہری علاقوں میں، لوگ اب زیادہ سے زیادہ صحت مند آپشنز کی طرف جا رہے ہیں۔ سپرمارکیٹس میں صحت مند تیلوں کے سیکشنز دیکھ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوگ اپنی خوراک کو لے کر زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ لیکن دیہی علاقوں میں، جہاں معاشی وسائل محدود ہوتے ہیں، بناسپتی گھی اب بھی ایک اہم آپشن ہے۔ اس کی سستی قیمت اور آسان دستیابی ان علاقوں میں اسے ایک مقبول انتخاب بناتی ہے۔
صحت مند طرز زندگی کی طرف رجحان
اس وقت دنیا بھر میں 'صحت مند طرز زندگی' کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ لوگ صرف کھانے کے تیل ہی نہیں، بلکہ پورے طرز زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جم جانا، غذا میں پروٹین کا اضافہ، اور کم چکنائی والے کھانے کھانے کا رجحان عام ہو رہا ہے۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں؟ یہ تبدیلیاں صرف جسمانی صحت کے لیے نہیں، بلکہ دماغی سکون کے لیے بھی ضروری ہیں۔
نیا دور اور نئی عادات
دیسی گھی سے بناسپتی گھی، اور پھر صحت مند تیلوں تک کا سفر یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم اپنے کھانے کے انتخاب میں مسلسل تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ لیکن آخر میں سوال یہ ہے:
کیا ہم اپنی خوراک میں مزید بہتر انتخاب کر سکتے ہیں؟
کیا ہم اپنے خاندان کے لیے صحت مند اور طویل مدتی فائدے والی غذا منتخب کر رہے ہیں؟
آج کا دور ہمیں موقع دے رہا ہے کہ ہم اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے صحت مند عادات اپنائیں۔ بناسپتی گھی ہماری ثقافت کا حصہ رہا ہے، لیکن آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنی صحت کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ تو کیا آپ تیار ہیں اس تبدیلی کے لیے؟"